Thursday 1 December 2011

کراچی، ڈکیتیوں میں تشویشناک اضافہ

حالیہ دنوں میں کراچی میں بینک ڈکیتی کی وارداتوں میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے رواں سال کے دوران ہونے والی بینک ڈکیتی کی ایک درجن سے زائد وارداتوں میں مسلح ملزمان لگ بھگ 6کروڑ روپے سے زائد نقدی کے علاوہ غیر ملکی کرنسی اور دیگر سامان لوٹ چکے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق اسی عرصے کے دوران 8ملزمان کوگرفتارکیاگیا جن سے صرف14لاکھ روپے سے زائد رقم برآمد ہوسکی ہے۔ شہر میں ہونے والی بینک ڈکیتی کی وارداتوں کی تفتیش کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ حالیہ وارداتوں میں کالعدم جہادی تنظیموں سمیت کئی گروہ ملوث ہیں۔تحقیقاتی ذرائع لے مطابق جیسے جیسے کالعدم جہادی تنظیموں کے لئے فنڈز کے ذرائع محدود ہوتے جارہے ہیں وہ اپنی بقا اور مسلح کاروائیوں کو جاری رکھنے کے لئے اسٹریٹ کرائمز، بینک ڈکیتیوں اور اغوا برائے تاوان کا سہارا لے رہے ہیں اور ان کاروائیوں کے لئے باقاعدہ تربیت یافتہ گروہ بنائے جاتے ہیں جو بڑی مہارت کے ساتھ کامیاب بینک ڈکیتیاں کرتے ہیں بلکہ جاتے ہوئے گارڈز کا اسلحہ اور بینکوں میں نصب خفیہ کیمروں کے علاوہ کیمروں کی ریکارڈنگ بھی نکال کرلے جاتے ہیں۔ پولیس ذرائع کاکہنا ہے کہ بینک ڈکیتی کے ملزمان شہرکی گنجان آبادیوں میں رہائش اختیارکرتے ہیں اور بینک کی مکمل ریکی کرنے کے بعد واردات کرتے ہیں اور واردات کے فوری بعد شہرچھوڑکرچلے جاتے ہیں۔سال رواں کے دوران ہونے والی بینک ڈکیتی کی وارداتوں کی تفتیش کے دوران یہ بھی انکشاف ہواہے کہ ان وارداتوں میں کالعدم تنظیموں کے علاوہ مختلف جیلوں سے رہا ہوکرآنے والے جرائم پیشہ افراد بھی شامل ہیں جو اپنا گروپ بناکر دن کے اوقات میں نہ صرف بینک ڈکیتی کی وارداتیں کرتے ہیں بلکہ مختلف علاقوں میں اجتماعی اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں بھی دیدہ دلیری سے کرتے ہیں اور مالدار افراد کو تاوان کے لیے اغوا بھی کرتے ہیں، ان ملزمان کا تعلق ملک کے شمالی علاقوں سے بتایا جاتا ہے جہاں ان کے روابط وہاں کے جہادی افراد سے بتائے جاتے ہیں۔ ان تفصیلات کے علاوہ معاملے کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ سیکیورٹی کمپنیوں سے حاصل کردہ بینکوں کے گارڈز نہ صرف غیرتربیت یافتہ ہوتے ہیں بلکہ اکثر اوقات یہ وارداتوں میں شریک بھی نکلتے ہیں اور یہ جن شناختی کارڈز پر ملازمت حاصل کرتے ہیں ان پر دور دراز شمالی علاقوں کا جعلی پتہ درج ہوتا ہے جن کی تصدیق اس کمپنی کے لئے ناممکن ہوتا ہے۔بہت سی وارداتوں کی تفتیش سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بینک کے اندر کی معلومات بینکوں میں رکھے جانے والے غیر مستقل یا عارضی ملازمین بھی ان گروہوں کو فراہم کرتے ہیں۔
بہرحال وارداتوں کی تفصیلات و معاملات تو تفتیشی ادارے جانیں، عام شہری اور تاجر طبقہ ان حالات سے بہت پریشان ہے اور عدم تحفظ کا شکار ہے اور ملکی اداروں پر ان کا اعتماد متزلزل ہو رہا ہے۔شہری گھر میں محفوظ ہیں نہ ہی سڑکوں پر، نہ بینکوں میں نہ دفتروں میں۔ شہری نہ بے فکر ہو کر سیر و تفریح کر سکتے ہیں اور نہ ہی کہیں تقریب میں شریک ہو سکتے ہیں کہ چشم فلک نے شادی ہالوں میں ڈکیتیوں کی اجتماعی وارداتیں بھی دیکھیں ہیں جہاں مہمانوں کے ساتھ ساتھ دولہا اور دلہن بھی تحائف اور زیورات سے محروم ہو چکے ہیں اور قبرستان میں تدفین میں شریک افراد کو بھی بارہالٹتے دیکھا ہے۔ ارباب اختیار جہاں ملک کو درپیش بڑے بڑے مسائل سے نبرد آزما ہیں کیا انہیں غریب شہریوں کی بے بسی اور بے کسی پر توجہ دینے کی فرصت ملے گی ؟۔۔۔۔۔۔ جو بہرحال ان کے فرض اولین میں سے ایک ہے۔۔۔!!!  

0 comments:

Post a Comment

Share

Twitter Delicious Facebook Digg Stumbleupon Favorites More