Tuesday 22 November 2011

منصور اعجاز کا خط .... حقیقت کیا ہے؟

فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون نے پاکستانی اور امریکی قصرنشینوں کی خواب گاہوں اور غلام گردشوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ مضمون نگار پاکستانی امریکن بزنس مین منصور اعجاز ہیں جنہوں نے مبینہ طور پر صدر مملکت آصف علی زرداری اور امریکی فوج کے کمانڈر ایڈمرل مائیک مولن میں ہونے والی خفیہ مراسلت کا پردہ چاک کرتے ہوئے ان اطلاعات و خدشات کو تقویت فراہم کردی ہے کہ حکومت اور فوج کے مابین تعلقات میں سب اچھا نہیں ہے۔منصور اعجاز نے اپنے مضمون میں فوج کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔اس خفیہ مراسلت کے ایک اہم کردار کے طور پر امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کا نام بھی سامنے آیا ہے۔حسین حقانی اپنے اس کردار سے انکاری ہیں جبکہ امریکی کمانڈر ایڈمرل مائیک مولن نے منصور اعجاز کی جانب سے ”میمو“ موصول ہونے کی تصدیق کر کے پہلے سے لرزیدہ حکومتی ایوانوں میں مزید ہلچل پیدا کر دی ہے۔تاہم ایوان صدر بھی حسین حقانی کی طرح اس بات سے انکاری ہے کہ صدر زرداری کی جانب سے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد فوجی قیادت کو ہٹانے کی کوئی خفیہ کوشش کی گئی ہے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان میں جب بھی کوئی سویلین حکومت برسر اقتدار آتی ہے ۔ فوج اور حکومت میں اعتماد اورایک دوسرے سے تعاون کی کمی اپنی جگہ موجود رہتی ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو صدر زرداری اور جنرل کیانی کے درمیان تعلقات ِ کار بظاہر بہت زیادہ مثالی رہے ہیں۔اور جب جب بھی امریکا کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج پر بداعتمادی کا اظہار کیا گیا ہے ۔ صدرزرداری کی حکومت دامے ، درمے ، سخنے فوج کے شانہ بشانہ کھڑی رہی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات تھیں جن کی بنیاد پر مذکورہ بالا مراسلت کی ضرورت پیش آئی۔خط کے حوالے سے جاری میڈیا وار منصور اعجاز نے جیت لی ہے۔کیونکہ مائیک مولن کی ابتدائی تردید کے بعد آخر کار انہوں نے خط کا وصول کرنا تسلیم کر لیا ہے۔خط کے مندرجات انتہائی خطرناک اور غداری کے زمرے میں آتے ہیں۔اس سارے معاملے میں یہ پتہ لگانا بھی ضروری ہے کہ حسین حقانی اس کا حصہ تھے کہ نہیں۔اگر وہ اس کا حصہ تھے تو پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اس بات کا پتہ لگایا جائے کہ یہ سب کچھ انہوں نے خود کیا یا صدر کی ہدایت پر کیا۔یا پھر منصور اعجاز کا یہ اپنا تخیل ہے۔یقینی طور پر یہ ساری صورتحال صاف ، شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات کی متقاضی ہے۔آخر کب تک ہم اپنے گندے کپڑے چوراہے کے بیچ میں دھوتے رہیں گے؟  Courtesy: Daily Jang 

0 comments:

Post a Comment

Share

Twitter Delicious Facebook Digg Stumbleupon Favorites More