Monday 2 January 2012

وزیر اعظم کے دعوے اور ملک کی بگڑتی صورت حال

وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام ان کے دور میں ہورہا ہے۔وزیراعظم کے بقول انہوں نے پورے ملک میں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھا دیا ہے ۔ اپنی اس بے مثال کارکردگی کی بنیاد پر انہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا ہے کہ وہ سیاسی یتیموں اور ٹسٹ ٹیوب بے بیز کے شور شرابے پر ایوان اقتدار سے رخصت نہیں ہوں گے۔ یہ باتیں انہوں نے ہفتے کے روز ملتان میں مختلف اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے کیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کے ان دعووں کے برعکس ملک کی حقیقی صورت حال بے حد پریشان کن ہے۔ کرپشن، مہنگائی، بے روزگاری اور بجلی کے بحران تو الگ رہے، اب تو کروڑوں گھروں کے چولہے بھی ٹھنڈے ہورہے ہیں کیونکہ کم و بیش پچھلے پچاس سال سے انہیں گرم رکھنے والا ایندھن یعنی گیس نہیں مل رہی ہے۔ پنجاب اور سرحد کے بعد اب سندھ اور بلوچستان بھی گیس کی کمیابی کا شکار ہو چکے ہیں اورکراچی کے کچھ علاقوں میں بھی دن کے بعض اوقات میں گیس کا پریشر اتنا کم ہوتا ہے کہ چولہے پر کچھ پکایا نہیں جاسکتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ بجلی کے سالوں پرانے بحران کے بعد بعد گیس کی عدم دستیابی نے صنعتوں کو مکمل تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اور قومی معیشت کی نبضیں ڈوب رہی ہیں۔ عوام کے زخموں پر مزید نمک پاشی بجلی، گیس ، سی این جی ، ایل پی جی اور پٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی صورت میں کی جارہی ہے۔ گیس کی قیمتیں بعض شعبوں کے لئے دو سو فی صد تک بڑھا دی گئی ہیں۔جس کے نتیجے میں شدید احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس دن وزیر اعظم نے اپنی کارکردگی کے دعوے کئے ملک بھر میں گیس کی قلت اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافے کے خلاف ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں سی این جی اسٹیشن اور پٹرول پمپ بند رہے۔کراچی میں سی این جی کی بندش کے خلاف پبلک ٹرانسپورٹ نے ہڑتال کی اور شہریوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ پنجاب میں اتوار کے روزتمام سی این جی اسٹیشن اور پٹرول پمپ بند رکھے جانے کا اعلان سامنے آیا۔ پورے ملک میں یہ حشر برپا ہونے کے تناظرمیں وزیر اعظم کی جانب سے اپنی حکومت کی شاندار کارکردگی کے دعوے قطعی ناقابل فہم ہیں۔ ہوشمندی کا تقاضایہ ہے کہ وہ گیس کے بحران کے نتیجے میں ملک کی مسلسل بگڑتی صورت حال کو بہتر بنانے، عوام کے لئے زندگی مشکل ہوتے چلے جانے کے عمل کو روکنے اور صنعتوں اور پوری معیشت کو تیزرفتار تباہی سے بچانے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کریں۔ پاکستانی شہریوں کی روز مرہ زندگی اور قومی معیشت میں قدرتی گیس کی اہمیت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ گھروں کے چولہے روشن اور مشینوں کا پہیہ رواں رکھنے کا تمام تر انحصار کئی عشروں سے قدرتی گیس ہی پررہا ہے۔ پچھلے کم و بیش بیس پچیس برسوں کے دوران پبلک اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کا بڑا حصہ بھی ایل پی جی اور پھر سی این جی کی شکل میں گیس پر منتقل ہوگیا۔ یہ سب حکومتی کی پالیسیوں اور بالواسطہ حوصلہ افزائی ہی کی وجہ سے ہوا۔ موجودہ حکومت نے دوسرے معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی سوچ بچار سے عاری پالیسیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔نئے نئے سی این جی اسٹیشن کھلتے رہے ، سی این جی سے چلنے والی گاڑیاں مقامی کارخانوں میں بنتی رہیں ، نتیجہ یہ کہ پوری دنیا میں کسی اور ملک میں اتنی بڑی تعداد میں پرائیوٹ گاڑیاں گیس سے نہیں چل ر ہیں۔ بجلی کا بحران گیس جنریٹروں کی مقبولیت کا باعث بنا کیونکہ پٹرول گیس کے مقابلے میں مہنگا تھا۔ کارخانوں میں بجلی کی طرح گیس چوری کا سلسلہ بھی پوری ڈھٹائی سے جاری رہا جس کا بنیادی سبب ملک میں اوپر سے نیچے تک پھیلا ہوا کرپشن کا مرض ہے اور موجودہ دور حکومت میں توکرپشن کے تمام سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چار سال پہلے جب وزیر اعظم گیلانی کی قیادت میں موجودہ ٹیم نے حکومت سنبھالی تھی تو فوری طور پر جائزہ لیا جاتا کہ قدرتی گیس اور سی این جی کے ذخائر کی کیا صورتحال ہے، یہ ذخیرہ کب تک ملکی ضرورت کا ساتھ دے سکتا ہے اوراس کے ختم ہونے سے پہلے کیا بندوبست کیا جانا ضروری ہے۔ لیکن اس کی کوئی فکر نہیں کی گئی۔ صرف باتیں ہوتی رہیں کہ ایران سے گیس پائپ لائن بچھائی جائے گی یا ترکمانستان سے گیس لی جائے گی۔ کبھی امریکہ کو ایران سے گیس کے حصول میں رکاوٹ قرار دیا جاتا رہا اور کبھی اس کی ڈکٹیشن کی پروا نہ کرنے کے اعلانات ہوتے رہے۔ یہ خوش خبریاں بھی ملتی رہیں کہ ملک کے اندر قدرتی گیس کے اتنے وسع ذخائر دریافت کرلئے گئے ہیں جو مزید پچاس سال کیلئے کافی ہوسکتے ہیں۔ مگر عملی طور پر نتیجہ صفر ہی رہا حتیٰ کہ نوبت یہاں تک آپہنچی کہ اب گھروں ، کارخانوں اور ٹرانسپورٹ سمیت پورا نظام بیک وقت زمیں بوس ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ان حالات میں ہم وزیر اعظم کو یہی مشورہ دے سکتے ہیں کہ وہ اقتدار سے نہ جانے کے غیرضروری دعوے کرنے کے بجائے ملک کو درپیش سنگین مسائل حل کرنے پر توجہ دیں جن میں اس وقت گیس کا بحران سرفہرست ہے۔ کیونکہ ملک کا ہر شہری اس سے براہ راست متاثر ہورہا ہے۔ ٹی وی چینلوں پر یہ مناظر عام دکھائے جارہے ہیں کہ گھروں میں چولہے ٹھنڈے ہونے کی وجہ سے بچے صبح ناشتہ کیے بغیر اسکول جاتے ہیں ۔ یا آدھی رات کے بعد کچھ دیر کے لئے گیس آتی ہے تو بچے کھانا پکنے کا انتظار کرکے سوچکے ہوتے ہیں۔گیس کی تقسیم کے نظام کو ٹھیک کرنے، اس سلسلے میں درست ترجیحات متعین کرنے، گیس کی چوری کا سلسلہ روکنے اور دوسرے ضروری اقدامات کرنے میں اب مزید کوتاہی کی گئی تو اس سے عام آدمی کی مشکلات اور پریشانی میں مزید اضافہ ہوجائے گااور حکومت کی کارکردگی جو پہلے بھی تسلی بخش نہیں ہے مزید خراب ہوجائے گی اور اس کی تلافی حکمرانوں کے زبانی دعووں سے نہیں ہوسکے گی۔

بلوچستان میں دہشت گردی کی واردات
کوئٹہ میں دہشت گردی و تخریب کاری کی ایک تازہ واردات میں سابق وزیر میر نصیراللہ مینگل کے صاحبزادے کے گھر کے قریب دھماکہ خیز مواد سے بھری ہوئی گاڑی کے دھماکے سے 15 افراد ہلاک اور 30 زخمی ہوگئے۔ اس دھماکے سے مرنے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔ بلوچستان میں قتل و غارت تسلسل سے ہورہی ہے۔ تازہ کار بم دھماکے کی ابتدائی تحقیقات سے جو اندازے لگائے گئے ہیں ان کے مطابق یہ واردات کسی تنظیم کی کارروائی بھی ہوسکتی ہے لیکن واردات کرنے والوں کے مقاصد اور عزائم کا ابھی تک کوئی اندازہ نہیں ہوسکا ہے۔ بلوچستان میں تشدد‘ تخریب کاری اور دہشت گردی کی مسلسل وارداتوں سے اس بات کا عندیہ ضرور مل رہا ہے کہ وہاں بدامنی تیزی سے بڑھ رہی ہے جس سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ صوبے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی تشدد اور بدامنی کی وارداتوں پر قابو پانے میں صوبائی اور وفاقی حکومت دونوں بے بس نظر آتی ہیں اور انہوں نے اب تک کوئی ایسی حکمت عملی نہیں بنائی ہے جسے دیکھتے ہوئے توقع کی جاسکتی ہو کہ حکومت صوبے میں تشدد اور خون ریزی کی ان وارداتوں پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ لیکن بلوچستان کے باشندوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا بھی مسئلے کا حل نہیں۔ بلوچستان کو بدامنی کی اس دلدل سے نکالنے کیلئے حکومت کو اپنی حکمت عملی موٴثر بنانی چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ صوبے کے عوام کی جائز شکایات کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے کوئی ایسا راستہ نکالا جائے جس کے ذریعے بلوچستان کے باشندوں کے گلے شکوے دور کئے جاسکیں اور ان کے احساس محرومی کا مستقل بنیادوں پر مداوا کیا جاسکے۔

دودھ کی قیمتوں کا مسئلہ
ہفتے کے روز کمشنر کراچی کی ہدایت پر شہر میں دودھ کی خوردہ قیمت 60 روپے فی کلو مقرر کرنے کا اعلان سامنے آیا ہے۔ دودھ کی قیمتوں کے حوالے سے ایک عرصے سے یہ عجیب و غریب صورتحال دیکھنے میں آ رہی ہے کہ حکومت دودھ کی قیمت کچھ مقرر کرتی ہے اور دودھ فروش کسی اور قیمت پر دودھ فروخت کرتے ہیں۔ اس وقت بھی صورتحال یہ ہے کہ پچھلے کئی ہفتوں سے شہر میں دودھ 70 روپے فی لیٹر فروخت کیا جا رہا ہے۔ نا معلوم وجوہات کی بنا پر حکومت اتنی مدت کے بعد اچانک دودھ کی فی لیٹر قیمت 60 روپے مقرر کر رہی ہے۔ کراچی کے شہریوں کے لیے یہ بڑی تکلیف دہ صورتحال ہے۔ کیونکہ سرکاری قیمت کے اعلان کے بعد انہیں عملاً اس قیمت پر پورے شہر میں کہیں دودھ دستیاب نہیں ہو گا۔ حکومت کو چاہیے کہ دودھ جیسی روزمرہ ضرورت کی چیزوں کے نرخ مقرر کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھے کہ یہ چیز مقررہ نرخوں پر شہر میں دستیاب بھی ہو۔ محض اعلان کر دینے سے ایسے احکامات کا عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اور حکومت کی سبکی الگ ہوتی ہے۔
 

0 comments:

Post a Comment

Share

Twitter Delicious Facebook Digg Stumbleupon Favorites More