Monday 2 January 2012

پاک بھارت تعلقات اور امریکی رویہ!!

پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لئے مذاکرات کا ایک دور حال ہی میں اسلام آباد میں ختم ہواجس میں دونوں ملکوں کے درمیان س بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ ایٹمی حادثات سے بچاوٴ کے معاہدے کو پانچ سال کیلئے توسیع دی جائیگی اور دونوں وفود مذاکرات میں ہونیوالی پیشرفت سے خارجہ سیکرٹریوں کو آگاہ کرینگے۔ان مذاکرات میں پاکستان نے غیر ارادی طور پر یا غلطی سے سرحد عبور کر کے بھٹک جانے والے افراد کی واپسی، پاک بھارت سرحد پر توپ خانہ پیچھے ہٹانے اور فوجی مشقوں کے بارے میں قبل ازوقت ایک دوسرے کو آگاہ کرنے کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کے حوالے سے نئی تجاویز پیش کیں۔دفتر خارجہ کے مطابق ابتداء میں دونوں ملکوں کے درمیان موجود مختلف معاہدوں پر غور کیا گیا جن میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی ، دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن اور کوسٹ گارڈ کے درمیان ہاٹ لائن اور فضائی حدود کی خلاف ورزیوں کے بارے میں 1991کامعاہدہ شامل ہے۔
پاکستان بھارت کو پہلے ہی تجارت کے لئے پسندیدہ ملک کا درجہ دے چکا ہے اور نجی سطح پر مختلف اشیاء کی تجارت کا آغاز بھی ہو گیا ہے۔ اگرچہ پاک بھارت مذاکرات کی رفتار بہت سست ہے لیکن حالیہ مذاکرات کا اہم پہلو یہ ہے کہ مذاکرات زیادہ تر سرحدوں اور فوجی امور سے متعلق ہوئے جن سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کے عمل کو تقویت ملے گی۔ اگر یہ عمل بلارکاوٹ جاری رہے تو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کم سے کم عرصہ میں بہتر ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ جب بھی پاک بھارت مذاکرات ہوتے ہیں تو کئی علاقائی اور بین ا لااقوامی طاقتیں ان مذاکرات پر نظریں گاڑ دیتی ہیں اور اپنے اپنے مفادات کے لحاظ سے ان مذاکرات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔سب جانتے ہیں کہ افغانستان سے نیٹو افواج کی واپسی، دہشت گردی کے خلاف جنگ، اور افغانستان میں تعمیر نو کے حوالے سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں۔ پاکستان نے امریکی خواہشات کو اپنے مفادات کے بر خلاف ماننے سے انکار کردیاہے بلکہ گذشتہ ایک ماہ سے نیٹو کی رسد بھی پاکستان کے راستے سے بند ہے چنانچہ پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لئے امریکہ اب بھارت پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ پاکستان سے تعلقات بڑھانے میں تیز رفتاری نہ دکھائے۔ خود بھارتی وزیراعظم ہاوٴس کے ذرائع کے مطابق امریکہ نے بھارت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے بڑھتے تعلقات کی رفتار میں کمی کردے، امریکی سفارتخانے کی جانب سے بھارتی وزیراعظم کو لکھے گئے ایک خط میں کہا گیا ہے کہپاکستان افغانستان میں امن کے قیام کی کوششوں کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کررہا ہے جس سے نہ صرف امریکی افواج کو افغانستان میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے بلکہ امریکا کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف جاری مہم بھی سست ہوکر رہ گئی ہے۔ ان حالات میں بقول امریکہ دہشت گردوں کو اپنی کارروائیوں کو دوبارہ شروع کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ امریکی خط میں کہا گیا ہے کہ بھارت ، معیشت کی بہتری کیلئے پاکستان کے ساتھ تجارتی روابط بڑھارہا ہے جبکہ یہ رابطے مستقبل قریب میں مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔
اس امریکی خط سے جہاں امریکہ کا پاکستان سے متعلق بھارت پر دباؤ کا پتہ چلتا ہے وہیں اس خطے میں امریکی عزائم کے متعلق بھی ایک اشارہ نظر آتاہے۔ اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ بھی اپنے دورہ بھارت کے دوران بھارت کو اس خطے میں امریکی تعاون سے قائدانہ کردار ادا کرنے کا مشورہ دے چکی ہیں یعنی دوسرے معنوں میں بھارت امریکی ڈکٹیشن پر چلے۔
کیا پاک بھارت مذاکرات سے تعلقات کی بحالی ممکن ہے یا محض وقت گزاری کا ذریعہ؟
لیا امریکہ اور مغربی ممالک کا دباؤ بھارت کو مذاکرات سے راہ فرار کا موقع دے سکتا ہے؟
کیا بھارت اس خطے میں غیر ملکی قوتوں کو دخل اندازی کا موقع فراہم کرنے میں مددگار ہوگا؟
لیا بھارت اپنے پڑوسی ملک سے تعلقات پر افغانستان میں امریکی مفادات کو ترجیح دے گا؟
افغانستان کے حوالے سے پاکستان اور بھارت میں بھی زبردست کشمکش جاری ہے، کیا اس حوالے سے دونوں ممالک امریکی مداخلت کے بغیر کسی باہمی تعاون اور سمجھوتے پر پہنچ سکتے ہیں ؟
آپ بھی اپنی رائے کا اظہار کریں۔

0 comments:

Post a Comment

Share

Twitter Delicious Facebook Digg Stumbleupon Favorites More