Monday 2 January 2012

انصاف کی منتظر حوا کی بیٹی!!!

سینٹ نے خواتین پر تیزاب پھینکنے اور جبری شادیوں کی روک تھام کے دو بل متفقہ طور پر پاس کئے ہیں جس کے تحت کسی خاتون پر تیزاب پھینکنے کی سزا عمر قید اور 10لاکھ روپے جرمانہ ہوگی جبکہ جبری شادی کی سزا 3سے 10سال قید اور 10 لاکھ جرمانہ قرار پائے گی۔یہ بل سینٹ میں پاکستان مسلم لیگ کی سینیٹر نیلوفر بختیار نے پیش کیا، تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان نے اس بل کی تائید کی اور رائے شماری کے بعد اسے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔اس بل کے تحت خاتون پر تیزاب پھینکنے پر عمر قید اور کم از کم 10 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔سینیٹ میں خواتین کی جبری شادیوں کو روکنے کے لیے بھی فوجداری قانون میں ترمیم کا بل 2011 پیش کیا گیا اور اس بل کی بھی متفقہ طور پر منظوری دے دی گئی۔اس بل کے تحت کسی عورت کو ونی یا سوارہ کرنے پر کم از کم تین سال اور زیادہ سے زیادہ10 سال قید اور پچاس ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی پہلے ہی ان بلوں کی منظوری دے چکی ہے اور صدرمملکت سے منظوری لینے کے بعد یہ پل باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کر جائیں گے۔ اس بل کی سینٹ اور قومی اسمبلی سے باقاعدہ منظوری کے بعد ذہن میں یہ سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا ان بلوں کو قانونی شکل مل جانے کے بعد مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہوپائے گی؟ کیا اس سوال کا جواب کسی کرتا دھرتا کے پاس ہے کہ ماضی میں جن خواتین کے ساتھ یہ اندوہناک سانحہ وقوع پذیر ہوچکا ہے انہیں بھی انصاف ملے اورظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے بھی اس بل میں کوئی شق رکھی گئی ہے؟ظلم کی شکار خواتین آواز تو اٹھا چکی ہیں تاہم انصاف کے دروازے ابھی تک ان کے لئے وا نہیں ہوپائے۔ایسی خواتین کو میڈیا کے ذریعے اکثر و بیشتر منظر عام پر لاکر قانون کے رکھوالوں کے ذہن پر دستک تو ضرور دی جاتی ہے مگر اس کا اثر کیا اور کس حد تک ہوتا ہے یہ عوام بہتر طور پر جانتی ہے۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات یا ان کو روایات کے نام پر ونی کردینے کی رسم بہت پرانی ہے اور میڈیا کے فروغ کے بعد اس کو منظر عام پر آئے بھی کئی برس بیت چکے ہیں مگر پھر بھی اس طرح کے کسی بل کی سینیٹ یا قومی اسمبلی میں منظوری 2011 میں کہیں جاکے عمل میں آئی ہے ایسے میں عوام بس امید ہی کرسکتے ہیں کہ صدر مملکت جلد ازجلد اس بل کی منظوری دے کر آنے والی نسلوں کو اس قبیح اور بھیانک جرم سے محفوظ رکھ سکیں اور حوا کی بیٹی کی زندگی بھی برباد ہونے سے بچ جائے۔یہاں سینٹ اور قومی اسمبلی جس کو کہ عوام کی رائے اور مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دیا گیا،اس سے یہ بھی گزارش کی جانی چاہئے کہ کوئی ایسا قانون یا بل بھی پاس کیا جائے جس سے ماضی میں ایسے واقعات کا شکار بدنصیب خواتین کو انصاف کے لئے عدالت کی چوکھٹ پے بیٹھ کر اپنی باقی ماندہ زندگی برباد نہ کرنی پڑے بلکہ ان کو بھی فوری اور آسان انصاف مہیا کیا جائے اور یہ ہی نہیں ایسی خواتین کو حکومت کی جانب سے مفت علاج معالجے کی سہولت بھی فراہم کی جائے تاکہ ان کی زندگی بھی آس و نراس کے جنگل سے نکل کر خوشیوں اور کامیابیوں کا گلشن بن سکے۔

ماضی میں ونی یا تیزاب پھینک کر چہرہ خراب کردی جانے والی خواتین کا بھی کوئی پرسان حال ہونا چاہئے؟

0 comments:

Post a Comment

Share

Twitter Delicious Facebook Digg Stumbleupon Favorites More