Tuesday 22 November 2011

لیبیا پر42 سالہ حکمرانی کا سورج غروب!!!

ظہیر اعوان
لیبیا پر42 سالہ حکمرانی کا سورج بالآخر غروب ہوگیا۔مغرب کی آنکھوں میں کھٹکنے والا اور ایک وقت میں عالم اسلام کا ہیرو معمر قذافی اپنے ہی ملک کے لوگوں کی نفرت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ انجام وہی ہواجو ہر آمر کا ہوتا ہے۔کل کا مطلق عنان ، 42برس تک لیبیا کی قلم رو پر بلا شرکت غیرے حکومت کرنے والا قذافی دنیا سے رخصت ہوا تو لوگ جشن منارہے تھے۔ صدام کی طرح قذافی بھی اپنے آبائی شہر کی ایک سرنگ سے برآمد ہوا اور مخالفین کی تڑتڑاتی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ یہ ہردل عزیز شخصیت کیوں عوام کے غیض و غضب کا نشانہ بن گئی ، یہ امر قابل غور ہے۔ اگر تیونس اور مصر کی بات کی جائے وہاں حکمرانوں کیلئے نفرت کی کئی وجوہات تھیں، لیکن لیبیائی عوام کا معیار زندگی بلند تھا، عوام کو اشیاء ضروریہ سمیت کئی سہولتیں مفت فراہم کی جارہی تھیں، لیکن آمریت کا ایک مزاج ہوتا ہے اور اس کا شخصی گھمنڈ تنقید برداشت نہیں کرسکتا۔ نتیجہ انسانی حقوق پر پابندی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یہی وہ آتش فشاں تھا ، جس سے ابلتا لاوا کرنل قذافی کے اقتدار کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گیا۔بن غازی میں انسانی حقوق کے ایک کارکن کی گرفتاری سے شروع ہونے والا احتجاج آج کرنل قذافی کے گلے کا پھنداثابت ہوا اور یہ بات عیاں کرگیا کہ جب عوام اپنے حقوق کیلئے اٹھ کھڑے ہوجائیں تو قذافی جیسا مضبوط حکمران بھی نشان عبرت بن جاتا ہے۔ قذافی کی موت پرانقلابی آج مصراتہ اور بن غازی میں جشن منارہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی لیبیا کی قومی عبوری کونسل کا اصل امتحان بھی اب شروع ہوگا۔ لیبیا میں قبائلی منافرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کل تک قذافی کے اقتدار نے مخالف قبائل کو یکجا کررکھا تھا۔ اب قابل غور یہ ہوگا کہ
لیبیا کی عبوری کونسل کی وحدت برقرار رہ سکے گی یا اقتدار کی خواہش ایک بار پھر محاذ آرائی کا سبب بنے گی؟
کیا تیل کی دولت سے مالا مال لیبیا کے انقلابیوں کامددگار امریکااور اتحادی خطے سے جائینگے؟
کیا عرب ممالک میں حکمران کش انقلاب کی سمت درست ہے، کہیں ایسا تو نہیں انقلاب کے نام پر کسی عالمی
سازش کے تانے بانے بنے جارہے ہوں ؟ Courtesy: Daily Jang

0 comments:

Post a Comment

Share

Twitter Delicious Facebook Digg Stumbleupon Favorites More