Monday, 2 January 2012

اپنا ہنر بیچتا ہوں...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان

برصغیر کے مشہور اِنقلابی شاعر نواب شبّیر حسن خان جوش# کا مشہور شعر ہے۔
”نہ ہوگا کوئی مجھ سا بھی تیرہ قسمت“
میں کمبخت اَپنا ہنر بیچتا ہوں
حالانکہ اُنھوں نے کبھی اپنے ہنر یعنی علم و ادب کو بیچنے کی غلطی نہیں کی بلکہ انگریز کے دور میں ایک پُر جوش اِنقلابی نظم لکھ کر ہندوستان کی زبوں حالی بیان کرتے ہوئے پرٹش انڈیا کی تباہی کے لئے ہٹلر سے یوں استدعا کی:
بکنگھم کی خبر لینے جو اب کی بار تو جانا
ہمارے نام سے بھی ایک گولہ پھینکتے آنا
اس کے ساتھ ہی انھوں نے ہندوستانیوں کی حالت زار بھی یوں بیان کی:
سنا تو ہوگا تو نے ایک انسانوں کی بستی ہے
جہاں جیتی ہوئی ہر چیز جینے کو ترستی ہے
اس نظم کے لکھنے پر انھیں سزا بھگتنے کی طویل داستاں ہے۔
جوش# نے اپنا ہنر (ضمیر نہیں) بیچنے کی بات شاید اس لئے محسوس کی ہوگی کہ فلم ڈائرکٹر ڈبلیو زیڈ احمد کے اصرار پر انھوں نے فلم ”ایک رات“ کے گانے لکھنے پر آمادگی ظاہر کردی اور ان کے تحریر کردہ گانے بیحد مقبول ہوئے۔ ایک گیت تو آجتک لوگوں کو یاد ہے۔
”دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی“
انھیں لیکن یہ فلمی گیت لکھنے کا ہمیشہ ہمیشہ قلق رہا اور اسی لئے انھوں نے ہنر بیچنے کی بات کی۔ چیزیں خریدی اور بیچی جاتی ہیں اسی لئے بیچنے والے کے نام سے اس کا پیشہ جُڑ جاتا ہے جیسے سبزی فروش، گندم فروش، موتی والا، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہمارے ملک میں ایک اور نہایت مکروہ اور قابل ہتک نام بھی ہے اور وہ ہے ”وطن فروش“ جسے عرف عام میں غدّار کہتے ہیں۔ بلکہ یہ نام یا لقب غدّار سے بھی زیادہ قابل نفرت ہے کیونکہ غدّار تو ایک گروپ، فرقہ یا چند لوگوں سے بے وفائی کرتا ہے لیکن وطن فروش تو اپنے ہم وطنوں کی عزّت، غیرت، حمیت، جان و مال کا سودا کردیتا ہے۔ تاریخ میں ایسے وطن فروشوں کی لاتعداد کہانیاں ہیں جن کی وجہ سے نسلیں تا قیامت اُن پر لعنت بھیجتی رہینگی۔ سب سے مشہور مثال ایسے غدّاروں کی ہمارے سامنے بنگال کے میر جعفر اور دکن کے میر صادق کی ہے۔ جن کا ذکر علامہ اقبال  نے بھی اپنے کلام میں یوں کیا ہے:
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگ ملت، ننک دیں، ننگ وطن
میر جعفر نے اگر نواب سراج الدولہ کے ساتھ غدّاری نہ کی ہوتی تو ہماری تاریخ مختلف ہوتی اور تمام انگریز وہیں نیست و نابود کردیے جاتے۔ غدّاری کے نتیجہ میں نوابی کی جگہ انگریزی تسلط قائم ہوا اور وہاں سے اُنھوں نے سازشوں کا جال پھیلا کر آہستہ آہستہ اپنا مقبوضہ علاقہ بڑھاتے رہے۔ اسی طرح میر صادق نے ٹیپو سلطان کے ساتھ غدّاری کی اور جنوبی ہند پر انگریزوں کا راج قائم ہوگیا۔ آہستہ آہستہ سازشیں کرکے انھوں نے نظام اور مرہٹوں کو شکست دیکر اپنا تابعدار بنالیا۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے ایسے غدّاروں کیلئے ننگ ملت، ننگ دیں، ننگ وطن کے الفاظ استعمال کئے یعنی ایسے وطن فروش لوگ مذہب و ملت اور وطن کیلئے باعث شرم ہیں۔ غدّاری کرنے والے اپنے مالک سے بے وفائی کرکے ذاتی مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں جب کہ وفا و غیرت جیسی خوبی کو ترک کردیتے ہیں۔ غالب# نے کیا خوب کہا ہے:۔
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مَرے بت خانہ میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو
یعنی اگر برہمن وفاداری میں مُسلَّم ہو تو اس قابل ہے کہ اس کی عظمت کی جائے کیونکہ وفاداری اگرپختہ ہو تو ایمان کی اصلیت ہے لیکن اسے مضبوط ہونا چاہئے ۔ جب وفاداری اتنی قابل قدر چیز ہے تو بے وفائی کتنی قابل نفرت اور مکروہ عمل ہے۔ غدّاری تو بے وفائی کی انتہائی خراب شکل ہے کیونکہ نفرت کے ساتھ اس میں بدعملی بھی شامل ہو جاتی ہے۔ بڑی بڑی حکومتیں اسی غدّاری کے سبب فنا ہوگئیں۔ ہندی میں ایک کہاوت ہے: ”گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے“۔ یہ اس لئے محاورہ بنا کہ لنکا کے راجہ راون کے بھائی نے راون کا ساتھ چھوڑ کر رام چندرجی کے پاس جاکر تمام راز بتلادیے جو راون کی شکست کا سبب بن گئے۔
ہمارے ملک میں بھی وطن فروشوں اور غدّاروں کی طویل فہرست ہے جنھوں نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ملک کے خیر خواہوں کو سخت نقصان پہنچایا۔ انھیں جیلوں میں ڈالا اور ماورائے قانون قتل بھی کروایا۔ یہ غدّار تو بظاہر کسی فرد واحد حکمراں کے مخالف تھے اور اس کی ذات کو نقصان پہنچانے کے درپے تھے حالانکہ پوری قوم نے اسکا خمیازہ بھُگتا۔ یعنی ایک ضمیر فروش و غدّار مسعود محمود کے عمل سے جناب بھٹو ایک جھوٹے مقدمہ میں پھانسی پر لٹکا دیئے گئے۔ غدّار کو تو مالی فائدہ ہوگیا مگر پوری قوم کو اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہونچا۔ ملک کے آگے بڑھتے قدم نہ صرف رُک گئے بلکہ پیچھے کی جانب چلنے لگے۔ دوسری بُرائی یہ پیدا ہوئی کہ دوسرے لوگوں کو بھی غدّاری کرکے ذاتی مفاد حاصل کرنے کا حوصلہ ہوگیا۔ یہ ایوب خان کے زمانہ سے، بلکہ غلام محمد کے زمانہ سے ہی شروع ہوگئی تھی اور جنرل ضیاء الحق اور مشرف کے دور میں انتہا کو پہنچ گئی۔ ضیاء الحق کے دور میں مذہبی انتہا پسندی اور منشیات کی اسمگلنگ کو فروغ ہوا، جمہوریت کو قتل اور دفن کردیا گیا اور بیرونی مداخلت براہ راست یا بالواسطہ شروع ہوئی۔ ملکی مفاد پرستوں نے زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنا اپنا مقصد بنا لیا۔ مشرف کا دور آیا تو سیاسی لوگ اور بیورو کریٹس حکومت کے ہم نوا بن کر اقتدار اور دولت دونوں حاصل کرنے کی بھاگ دوڑ میں لگ گئے۔ جس کی جیتی جاگتی مثال ایک صاحب ہیں جنھوں نے بھٹو صاحب کی پھانسی کے دن ہمارے سامنے مٹھائی بانٹی اور آج ان سے بڑا مخالفین کو لعن طعن کرنے والا ملک میں نہیں ۔
اور اپنے پچھلے کارناموں پر رتی برابر پشیمانی نہیں۔
پرویز مشرف کے آرمی چیف بننے اور حکومت پر قبضہ کرنے سے پیشتر ہی فوج کو اور عوام کو اس کے کردار کے بارہ میں تمام باتوں کا علم تھا۔ جوں ہی اس نے حکومت پر ناجائز قبضہ کیا تو اپنے ساتھ لٹیروں کا ایک گروہ ساتھ میں ملا لیا۔ ملک کی عزّت و وقار کو چند ٹکوں میں بیچ دیا، ہمیں امریکی کالونی بنادیا، اپنے ہی ہزاروں شہریوں کو قتل کردیا اور دوسروں سے کرایا۔ اپنے لوگ بیچ کر اس بارہ میں اپنی کتاب میں فخریہ اس کی رقم وصول کرنے کا ذکر کیا۔ عورتیں، بچّے، علماء، بزرگ سیاستداں نواب اکبر بگتی وغیرہ کو شہید کیا۔ چوروں لٹیروں کے اربوں روپے کے قرضے معاف کردیئے۔ ایک وقت تھا جب ہمارے یہاں سرفروشوں کی عزّت کی جاتی تھی مگر اب ہم ضمیر فروشوں ، غدّاروں اور منافقوں کو ہیرو بنائے پھرتے ہیں ۔ اب وطن فروشوں نے ملک کے اندر ایسی پالیسیاں اختیار کرلی ہیں کہ بجائے جنگ کے ہم اقتصادی ، مالی اوراخلاقی طور پر ختم ہو کر پرانے غدّاروں کی فہرست میں شامل ہوجائیں گے۔ روس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ گورباچوف کی پالیسیوں پر یہاں بھی تیزی سے عمل ہو رہا ہے۔
(نوٹ) پچھلے کالم میں اپنے عزیز دوستوں کے نام لکھنا بھول گیا تھا۔ جناب ریاض محمد خان، عزیز احمد خان، انور کمال صاحب اور ڈاکٹر افضل اکبر خان تشریف لائے تھے بے حد شکر گزار ہوں۔ کے آرایل کے ڈاکٹر نور الاسلام خان نورو فزیاتھراپسٹ نے جلد صحتیابی میں مدد کی ان کا بھی بے حد شکر گزار ہوں۔

0 comments:

Post a Comment

Share

Twitter Delicious Facebook Digg Stumbleupon Favorites More